Saturday, December 20, 2008

کیا آپ کو بھی یہ پریشانی ہے ۔۔۔؟

3 comments
ایک تازہ خبر ۔۔۔ لیکن اس پہلے ذرا میری پریشانی ملاحظہ فرمائیں ۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ میں نے بڑی توجہ اور انہماک سے اردو مجلس کو کھولا اور 16 دسمبر کے حوالے سے کچھ تحریر کرنے کا ارادہ کیا ۔ تھریڈ بنایا اور لکھنا شروع کیا ابھی ابتداء ہی کرپایا تھا کہ کمپیوٹر میں جان نہ رہی معلوم ہوا کہ بجلی داغ مفارقت دے گئی ہے ۔ خیر ۔۔۔۔۔ فیز تبدیل کیا [الحمدللہ ہمیں یہ سہولت دستیاب ہے ۔]اور دوبارہ سے کمپیوٹر کو اسٹارٹ کیا اور اس فیز سے بھی ابھی بمشکل پانچ منٹ استفادہ کرپایا تھا کہ یہ بھی ساتھ نہ نبھا سکا ۔ میں غصے اور بے بسی کے عالم اٹھ گیا اور دوبارہ کوشش نہ کی ۔مجھے یہ پریشانی ہوتی رہتی ہے ۔ اس لیے بعض اوقات سہولت ہوتے ہوئے بھی کمپیوٹر کے سامنے بیٹھتے ہوئے جھنجھلاہٹ ہوتی ہے ۔کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ محنت ضایع نہ ہوجائے یا پھر وقت ضایع نہ ہو ۔
اور اب خبر ۔۔۔۔ وفاقی وزیر پانی وبجلی [نام مجھے یاد نہیں ]نے اعلان کیا ہے کہ بجلی کی یہ کیفیت آئندہ سال تک جاری رہے گی ۔
یہ بات یقینی ہو تو شاید صبر بھی آجائے ۔لیکن اس طرح کے وعدے پچھلے وزاء بھی کروا چکے ہیں ۔تو اعتبار کیسے کیا جائے ۔سو ہم اس تمام صورتحال کو پی جاتے ہیں ۔ گویا
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
ویسے میرا اس موضوع پر اس لیے لکھا کہ ایک دوسرے کی ڈھارس بندھائی جاسکے ۔یا پھر جو اس بھی مشکل صوتحال سے دوچار ہو تو ہم اسے دیکھ کر اپنی حالت پر شکر ادا کریں ۔کیا آپ کو بھی یہ مشکل درپیش ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

Thursday, December 18, 2008

شکنجہ یہود

1 comments
یہودی کسطرح امریکہ پر کنٹرول کیے ہوئے ہیں پال فنڈلے کی اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے ۔ پال فنڈلے سابق امریکی سینیٹر ہیں اور حکومتی ایوانوں میں یہودی اثرورسوخ کے بارے میں خوب خبر رکھتے ہیں ۔ ان کی اس کتاب کے ایک حصہ پیش خدمت ہے ۔ (اس کتاب کا اردو ترجمہ محترم سعید رومی صاحب نے کیا ہے ۔)
شکنجۂ یہود
شاہِ دماوند
واشنگٹن مخفف ناموں کے لیے شہرت ررکھتا ہے اور کانگریس میں ''AIPAC'' سب سے زیادہ مشہور ہے ۔ اس کا ذکر ہی ان لوگوں کو چونکا دینے اور متوجہ کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے جو کہ کیپیٹل ہل پر مشرق وسطیٰ کی پالیسی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ''AIPAC'' یعنی امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی اب واشنگٹن میں اہم ترین لابی ہے ۔
۱۹۲۷ ء میں جبکہ مین چوتھی مرتبہ منتخب ہو کر کا نگریس کا ممبر تھا تو مجھے '' فارن افیئر ز کمیٹی '' مین نامز کیا گیا ۔ وقت میں اس کا نام بھی نہ سنا تھا ۔ ایک دن میں نے کمیٹی روم میں ذاتی گفتگو کے دوران اسرائیل کے شام پر حملے کو نامناسب کہا ۔ ایک سینیٹر ریپبلیکن ۔۔۔۔۔۔۔ مشی گن کے ولیم ۔ بروم فیلڈ نے مسکراتے ہوئے مجے کہا ''ذرا ''AIPAC'' کے Si Kenan تک تمہاری اس رائے کی خبر پہنچنے دو پھر دیکھنا ۔ ا س کا اشارہ I.L Kenan کی طرف تھا جو ''AIPAC'' کا ایکزیکٹو ڈائریکٹر تھا ۔ مٰن اس کے نام سے بھی اتنا ہی شناسا تھا جتنا کہ اس تنظیم کے نام سے جس کا وہ سربراہ تھا ۔ بعد میں یہ ثابت ہوا کہ بروم فیلڈ ہنسی مذاق نہیں کر رہا تھا ۔ ''AIPAC''کو اس ذاتی گفتگو کی بھی بھنک پہنچ جاتی تھی جو ایک کانگریس ممبر مشرق وسطی کے بارے میں کرے ۔ اسرائیل پر نکتہ چینی کرنے والے سیاسی خطرات کو دعوت دیتے ہیں ۔
''AIPAC'' اسرائیلی لابی کا ایک حصہ ہے لیکن اثر اندازی کے لحاظ سے یہ اہم ترین حصہ ہے ۔ یہ تنظیم پچھلے چند برسوں میں بہت گہرائی اور گیرائی حاصل کرچکی ہے ۔یہ کہنا قطعا مبالغہ آمیز نہ ہوگا کہ مشرق وسطی کے بارے میں یہ تنظیم کیپیٹل ہل کے ہر اہم پہلو پر چھا چکی ہے ۔ ہاؤس اور سینٹ کے ممبران تقریبا بلا استثنا اس کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے یہ تنظیم کیپیٹل ہل پر ایک ایسی سیاسی قوت کی براہ راست نمائندہ ہے جو ان کءے الیکشن کےوقت ان کے امکانات کو بنا اور بگاڑ سکتی ہے ۔
یہ بات چاہے حقیقت پر مبنی ہو یا فسانے پر لیکن یہ بات اہم ضرور ہے کہ ''AIPAC'' نام ہی ایک قوت ۔۔۔۔۔ یعنی ایک دہشت زدہ کر دینے والی قوت کا ہے ۔ اس کا جو شایع شدہ مواد ملتا ہے اس میں نیویارک ٹائمز اخبار کا یہ جملہ ہمیشہ بطور حوالہ در ج ہوتا ہے کہ یہ تنظیم مضبوط تین ، منظم ترین اور مؤثر ترین گروپ ہے جو واشنگٹن میں خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوتا ہے ۔MccCloskey Paul N. ‘ Pete’’
سابقه كانگريس ممبر نے تو صاف صاف يوں كها هے كه كانگريس پر ''AIPAC''كي دهشت چھائي هوئي هے ۔دوسرے كئي كا نگريس ممبران نے اپنے عوامي بيانات ميں اس قدر صاف گوئي سے كام نهيں ليا ' ليكن ذاتي گفتگو ميں وه اس سے متفق هيں ۔
''AIPAC'' كا يه اثرونفوذ كچھ زياده پراني بات نهيں ' صرف چند سال پيشتر ''Conf. of Presidents of Maj. Jewish Organisations’’ کو واشنگٹن میں سب سے اہم اسرائیل نواز گروپ سمجھا جاتا تھا کیوں کہ یہ ۳۸ مختلف یہودی گروپوں کی نمائندگی کا دعویدار تھا ۔Anti-Defamation League امریکن جیوش کمیٹی اور ''AIPAC'' اس کی حاشیہ بردار تھیں ۔ مؤخر الذکر دو تنظیموں کے الگ الگ 50000 ممبران ہیں ۔انٹی ڈی فیمیشن لیگ تکنیکی طور پر ''Bani Barth'' کی ایک ذیلی تنظیم ہے جس کے دنیا بھر میں تقریبا 500000 ممبران ہیں ' لیکن یہ اپنے فنڈ خود اکھٹا کرتی ہے اور کافی حد تک خود مختاری حاصل کر چکی ہے ۔
واشنگٹن کے دو نمائندے American Jewish Committee کے Hyman Bookbindaer اور Anti Defam. League کے Dave Brody جو کہ اپنے اوائل عمر ہی میں ہی خاصے ممتاز تھے ' اب ''AIPAC'' سے گہنا چکے ہیں ۔ واشنگٹن میں جو لابی ہے وہ تو برفانی تودے کی نظر آنے والی چھوٹی سی چوٹی ہے ۔ اس کے اثر ونفوذ کا دارومدار امریکن یہودیوں کے ان دوسو سے زا ئد گروپوں پر ہے جو انہوں نے قومی پیمانے پر قائم کر رکھے ہیں ۔''AIPAC'' کے ایک ذمہ دار اسٹاف کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں تقریبا ۲۰کاکھ یہودی سیاسی یا فلاحی طور سے دلچسپی لیتے ہیں ' بقیہ ۴۰ لاکھ نہیں ۔ ان بیس لاکھ میں سے بھی اکثریت کا تعلق کسی حد تک رقم دینے سے ہوگا ۔
دراصل وہ لوگ جو امریکہ میں یہودیوں کی تمام تحریکات میں حصہ لیتے ہوں گے وہ اغلبا 250000 سے زیادہ نہ ہوں گے ۔اس لابی کا مقبول ترین نیوز لیٹر بنام ''Near East Report'' تقریبا ساٹھ ہزار افراد کو بھیجا جاتا ہے ۔اس تنظیم کے خیال میں تمام امریکی شہریوں کو جن کی کسی بھی قسم کی ذمہ داری ہے ' اسرائیل نواز سیاسی مفادات کی حفاظت کرنی چاہیے ۔ وہ ''AIPAC'' میں دلچسپی رکھتے ہوں یا ''Bnai Narth '' امریکن جیوش کمیٹی ' انٹی ڈی فیمیشن لیگ ' جیوش نیشنل فنڈ ' متحدہ جیوش اپیل یا اورکوئی بھی قومی گروپ ہو وہ اس کو پڑھتے ہیں ۔ یہ نیوز لیٹر اعزازی طور پر تمام ذریع ابلاغ ' کانگریس اراکین ' اہم سرکاری عہدیداروں اور دسرے خارجہ پالیسی میں ممتاز افراد کو بھیجا جاتا ہے ۔''AIPAC''کے ممبران کو یہ نیوز لیٹر ان کے 35ڈالر چندہ کے عوض بھجوایا جاتا ہے ۔
عملی طور پر تمام گروپ اسرائیلی حکومت کے اعزازی نمائندوں کے طور پر کام کرتے ہیں ۔یہ اس بات سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ ۱۹۸۱ ء میں جب کہ عراق کے ایٹمی ری ایکٹر کو اسرائیل نے بمبای سے تباہ کیا تو ''AIPAC'' نے وہ سرکاری اعلان ڈرافٹ کرنے میں مدد کی جس میں اس حملے کا دفاع کیا گیا تھا ۔ یہ اعلامیہ امریکی حکومت اور اسرائیلی سفارت خانے کی طرف سے بیک وقت جاری کیا گیا ۔
یہودیوں کی کوئی بھی قابل ذکر تنظیم اعلانیہ طور پر کسی ایسے مسئلے کی مخالفت نہیں کرتی جو اسرائیل کی حکومتی پالیسی کے مطابق ہو ۔ تھامس ۔ اے ۔ڈائن ایکزیکٹو ڈائریکٹر [''AIPAC''] پہلے تو ستمبر ۱۹۸۲ء میں صدر ریگن کے امن پلان کے بارے میں رطب اللسان تھا لیکن جوں ہی اسرائیل حکومت نے اسے مسترد کیا وہ منہ میں گھنگھنیاں ڈاال کر بیٹھ گیا ۔
اس قدر ہم آہنگی بعض دفعہ حکومتی سطح پر مزاح کا باعث بنتی ہے ۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں ہم لوگ یہ پیش گوئی کیا کرتے تھے کہ'' اگر اسرائیلی وزیراعظم یہ اعلان کردے کہ زمیں چپٹی ہے تو امریکن کانگریس چوبیس گھنٹے کے اندر اندر ایک مبارک باد کا ریزویشن پاس کردے گی ''۔ یہ الفاظ سوڈان کے سابقہ سفیر اور سفارتی اہل کار کارڈان برگس کے تھے ۔
یہودی تنظیموں کے لیے واشنگٹن میں لابی کرنا ایک بے حد سنجیدہ کام ہے ۔ ان کا اب اپنی سیاسی رہنمائی کے لیے ''AIPAC'' پر انحصار روز افزوں ترقی کررہا ہے ۔ واشنگٹن پوسٹ اخبار کے ڈپٹی ایڈیٹر Stephin S. Rosenfeld کے بقول ''AIPAC'' اب واضح طور پر امریکہ میں ایک اہم ترین یہودی سیاسی قوت ہے ۔
''AIPAC'' کے منشورمیں ا س کا مقصد قانون سازی درج ہے لیکن اب یہ ہر اس بات میں اسرائیلی مفادات کا تحفظ کرتی ہے جو اسے اپنے نقطۂ نظر سے امریکی ذرایع ابلاغ میں ' مذہبی محاذ پر یا امریکی کالج کیمپسوں میں الغرض ہر جگہ اسرائیل مخالف نظر آئے ۔چونکہ ''AIPAC'' کے ملازمین کو تنخوہ امریکن لوگوں کے جمع شدہ چندوں سے دی جاتی ہے اس لیے اسے غیر ملکی رجسٹریشن ایکٹ کے ماتحت رجسٹر کرانے کی ضرورت نہیں ' لیکن کام وہ غیر ملکی ایجنٹوں والا کررہے ہوتے ہیں ۔
ان سالہا ئے گذشتہ میں اسرائیل لابی امریکی نظام حکومت میں اچھی طرح گھر کر چکی ہے اور مؤثر ترین گروپ ''AIPAC'' ہے ۔ امریکی صدر کو بھی جب عرب اسرائیل تنازعہ میں کوئی نازک موڑ آجائے تو اس کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے ۔

Sunday, December 7, 2008

میڈیا

0 comments
میں ایک محفل میں شریک تھا بات ہو رہی تھی کہ جب ہم کسی قوم کی کسی چیز کو رواج دیتے ہیں تو اس کے ساتھ پورا سسٹم آتا ہے صرف وہ چیز نہیں ۔ یہ ایک مغربی فلسفی کا نقطہ نظر تھا مثال پیش ہوئی جینز کی، ایک صاحب کہنے لگے ۔آپ جینز پہنتے ہیں اسے پہن کر آپ کو پیشاب آجائےتو آپ کو وہ مخصوص مقام چاہیے جہاں آپ کھڑے ہو کر فارغ ہوں اور اگر رفع حاجت ہے تو کموڈ۔ گویا ایک چیز اپنے ساتھ پورا ماحول بھی لائی ۔علی ہذا القیاس
آج جب میڈیا کے اثرات پر گفتگو دیکھی تو ذہن میں مذکورہ بالا واقعہ تازہ ہو گیا ۔ میں اگر چہ اس فلسفہ سے سو فیصد متفق نہیں لیکن قائل ضرو رہوں ۔
مغرب اس وقت غالب ہے وہاں سے جو چیز آتی ہے وہ اپنے ساتھ وہ مضر اثرات بھی لاتی ہے جو اس معاشرے کا حصہ ہیں ۔
میڈیا کے آنے سے غلغلہ مچا کہ دنیا سمٹ گئی ہے ۔تسلیم ۔۔ لیکن اس سے کیا ہوا ۔۔۔! تہذیب مغرب ہی عام ہوئی ۔ ہماری نظر صرف اخلاقی بگاڑ پر جاتی ہے اور یہ صحیح بھی ہے کہ اصل تو اخلاق ہے ۔لیکن اس سے قطع نظر اگر خالص مغربی نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو بھی اس میڈیا کے بے ہنگم پھیلاؤ کے فطری نقصانات ہوئے ہیں ۔مثلا ً انسانی کلچر تباہ ہوا ، زبانیں تباہ ہوئیں ، رسوم رواج ختم ہوگئے ،انسانی تعلقات کے زاویے بدل گئے ۔ یہ سب انسانی زندگی حسن ہے ۔ہر علاقہ اس کی زبان اس کے رسم وروا ج ایک اپنا حسن اور چاشنی رکھتے ہیں افسوس ہم اس سے محروم ہورہے ہیں ۔
اس کے علاوہ اگر ہم ایک پاکستانی اور مسلم ہونے کی حیثیت سے دیکھیں تو معاملہ کچھ یوں ہے کہ دور غلامی میں ہم نے مغرب سے جو چیزیں لیں ۔لانے والے اسے ویسا ہی لائے ابتداء میں کچھ حدود وقیود لیکن بتدریج یہ سب ختم ہوتا گیا اور میڈیا کو بے لگام آزادی دے دی گئی ۔حصول دولت [جو کہ مغرب کا مذہب ہے ۔]کے لیے ہمارا مذہب ،معاشرہ ،کلچر ، رسوم ورواج سب کچھ قربان کیا جارہا ہے ۔ظاہر ہے ہمارا کلچر اور مذہب ومعاشرہ اس کارپوریٹڈ کلچر کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ زیادہ سے زیادہ دولت تو تبھی کمائی جاسکتی ہے جب نوجوانوں کے جذبات کو برانگیختہ کر دیا جائے اور انہیں نہ ختم ہونے والی خواہشات کا اسیر بنا دیا جائے ، ان کی سوچ کو اپنی گرفت میں لے لیا جائے ۔ وہ میڈیا پر جو دیکھے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرے قطع نظر اس کے کہ وہ اس کے حق میں نقصان دہ ہے یا فائدہ مند ۔
بحیثیت مسلم ہماری یہ ذمہ داری تھی کہ ہم اس چیز کا صحیح استعمال کرتے ۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھوں میں یہ سب کچھ ہے ان کے ''نام مسلمانوں کی طرح ہونے کے باوجود ''وہ لوگ مغرب سے دو ہاتھ آگے ہیں کیونکہ مغرب کا تو مذہب ہی حصول دولت ہے ۔وہ اپنے نقطہ نظر کے مطابق صحیح بھی ہے اور کامیاب بھی ۔حیرت ہے ہم پر کہ ہم کہاں جا رہے ہیں ۔
مجھے کسی حکومت یا کسی مقتدر ہستی سے خیر کی توقع نہیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ میری اور آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس حوالے سے جو ہو سکے کریں ۔ تہذیبوں کا تصادم جاری ہے سوال یہ ہے کہ میں کس طرف کھڑا ہوں ۔

نیت اور خلوص نیت (چند پہلو)

·         عمل  کااولین مرحلہ نیت یا ارادہ کی تشکیل ہے ۔ نیت جتنی سنجیدہ ، شدید اور پختہ  ہوگی عمل اتنا ہی جلد اور بہتر وقوع پذیر ہ...

Search This Blog

Instagram

Sidebar Menu

Slider

Advertisement

About Me

Disqus Shortname

Facebook

Recent Posts

Comments system

Home Ads

Popular Posts