Saturday, December 14, 2013

نیت اور خلوص نیت (چند پہلو)

0 comments



·        عمل  کااولین مرحلہ نیت یا ارادہ کی تشکیل ہے ۔ نیت جتنی سنجیدہ ، شدید اور پختہ  ہوگی عمل اتنا ہی جلد اور بہتر وقوع پذیر ہوگا۔ اور نیت جتنی غیر سنجیدہ اورناپختہ  ہوگی عمل اتنا ہی خستہ ہوگا ۔
·        نیت کو عمل اور حالات پر اثر انداز ہونا چاہیے۔ لیکن معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے  یعنی عموما ًنیت ماحول اور حالات کو دیکھ کرکی جاتی ہے ۔ نتیجتا ً وہ عمل اور ماحول پر کوئی اثر نہیں ڈالتی ۔ اس کی مزید کھول کر یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ نیت دل کےا رادے کا نام ہے اور ارادہ اپنی تشکیل کے وقت ہم سے کوئی شرائط نہیں منواتا ۔ آپ معذور ہوں لیکن اس سوچ پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی کہ آپ خود کو صحت مند سمجھیں ۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ آپ  کی اس نیت وارادے پر دوسرے ناک بھوں چڑھائیں ۔ اس کو عموماً خواب دیکھنا بھی کہتے ہیں ۔ یعنی آپ کو خواب دیکھنے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا الا یہ کہ آپ خود ان کا گلا گھونٹنا چاہیں ۔ اسی طرح آپ بظاہر ناقابل تصور امور کی نیت بھی کرسکتے ہیں ۔ اور معاملہ یہ ہے اکثر ناقابل تصور نیتیں کامیاب عمل کا روپ دھارگئیں ۔
·        اچھی نیت کی عادت ایک نعمت ہے لیکن ایک باطنی عمل  ہونے کی بنا پر اس عادت کی پرداخت اور نشوونما کرنا ایک امر دشوار ۔ لہذااس کے لیے  ضروری ہے کہ ہمیشہ یہ بات مستحضر رکھی جائے کہ اللہ کی ذات میری نیت سے بخوبی واقف ہے ۔
·        نیت بھی ایک ٹھوس حقیقت ہے لہذا اسے خیال سمجھ کر نظر انداز  کرنا درست نہیں ۔دنیا کی میزان میں اگرچہ عمل ہی باووزن ہوتا ہے ۔لیکن رب تعالی کے ہاں نیت کا بھی وزن اور بدلہ موجود ہے ۔لہذا اچھی نیت کی نشوونما میں اس بات کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔
·        نیت  کی درستی عمل کو درست زاویہ فراہم کرتی ہے ۔ غلط نیت اچھے عمل کے بھی غلط نتائج فراہم کرتی ہے ۔ جبکہ بعض اوقات  بعض اعمال اچھی نیت  کے باعث مثبت اثرات ڈالتے ہیں ۔
·          نیت کا خلوص ، عمل کی دوامیت اور تسلسل    کی صورت میں  بھی نظر آتا ہے ۔ اور اسی سے نیت کی پختگی کا بھی پتا چلتا ہے ۔
·        باہمی معاملا ت میں خلوص نیت کا ضروری یہ ہے ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کی ذات  ہو۔اس کو تمثیلاً اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ  باہمی معاملات ایک مثلث کی صورت میں ہونے چاہییں جس کے مساوی سِروں پر  صاحبان معاملہ اور بالائی سرے پر رب تعالیٰ ہو ۔  جب بھی کسی سے کوئی معاملہ ہو تو وہ اس شخص سے پہلے رب سے ہو اور اس کے بعد  بندے سے  ۔ کیوں کہ ہم اپنے محسوسات وجذبات خلوص کے اعتبار سے  صرف اللہ کے ساتھ ہی مساوی اور غیر متبدل رکھ سکتے ہیں ۔ جن پر حالات وواقعات اثر نہ کرسکیں ۔ افراد کے بارے میں ہماری کیفیات مختلف ہوتی رہتی ہیں ۔ اور اگر کوئی شخص رب تعالیٰ کے معاملے میں کوئی اعتراض کرے تو بندوں سے معاملے میں  اس کا کیا اعتبار  جاسکتا ہے !
·        باہمی معاملات میں خلوص نیت کے مذکورہ  بالا مفہوم  پر عمل کرنے سے کئی فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔
§        اول تو یہ کہ معاملہ میں کوئی بدمزگی آجائے تو صبر کرنا آسان ہوجاتا ہے ۔ اور معاملہ اپنے رب کے سپر د کردیا جاتا  ہے ۔
§        دوم یہ کہ معاملے میں کوئی  بدمزگی  آجانے کے باوجود ان حدود کا خیال رکھا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس حوالےسے مقرر کی ہیں ۔ اور ظلم وتعدی سے دور رہا جاتا  ہے ۔
§        سوم یہ کہ معاملہ اگر اخلاقی نوعیت کا ہوتو راہ اعتدال پر رہا جاتا  ہے اور کسی انتہا پسندی کا شکار نہیں ہوا جاتا ۔ مثلاً والدین اگر معصیت کا حکم دیں تو نہ ہی مخالفت میں ان سے قطع تعلق کرنااور نہ ہی محبت میں ان کے ہر حکم کی تعمیل ۔
§        چہارم یہ کہ  دنیاوی مراتب انسان کی پریشانی کا باعث نہیں بنتے ۔ یعنی کسی متمول عزیز کی آمد پر اس کے ہم مرتبہ اہتمام کے  لیے مقروض ہونے کے بجائے اپنی استطاعت کو ملحوظ رکھنا اور اس پر مطمئن رہنا ۔
§        پنجم یہ کہ اللہ تعالیٰ اس خلوص میں تاثیر پیدا کردیتا ہے ۔ یعنی بظاہر چیز بہت معمولی ہوتی ہے لیکن مقابل پر بہت گہرا اثر ڈالتی ہے ۔ جیسے کسی کا بہت معمولی اور حقیر سے تحفے کی بہت عزیز  رکھنا۔
(نامکمل)

Friday, May 31, 2013

شخصیت پسندی اور جدت پسند

0 comments


شخصیت پرستی اورمرعوبیت بھی دراصل پستی وغلامی کا ایک شاخسانہ ہے جس میں آدمی کی عقل وخرد اپنا کام کرنا چھوڑ دیتی ہے ۔ کیوں کہ کوئی بھی شخصیت چاہے وہ کتنی ہی عظیم ہو اگر ہم اسے انسان کہتے ہیں اور اس کے لیے کوئی ماورائی رہنمائی سے انکاری ہیں تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ غلطیوں سے مبرا نہیں اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ وہ نسیان وخطا سے دامن نہیں بچا سکتا تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس شخصیت کی ہر بات کو سند قبولیت دے دی جائے اور صرف یہی نہیں بلکہ جو اس کی مطلوبہ حیثیت تسلیم نہ کرے اس کے خلاف تیر وتفنگ لے کر حملہ کردیا جائے ۔
پچھلےدوتین سو سالوں میں امت اسی ذہنی غلامی وپستی اور مرعوبیت  کا شکار ہے ۔ اور اس غلامی میں نرے قدامت پسند ورجعت پسند ہی نہیں بلکہ وہ طبقے بھی ہیں جو روشن خیال ہیں اور جدت وتغیر جن کا شعار ہے ۔ اس دورِ پستی میں جو ابھی تک جاری ہے عموما یہ بات باور کرائی جاتی ہے کہ دین پسند طبقہ قدامت پسند ہے رجعت خیالی کا علمبردار ہے اور پنے مسلکی ، مذہبی اور مخصوص شخصیت کے گرد بنے ہوئے خول سے باہر آنے کو تیار نہیں ۔ اس بات میں کسی قدر وزن بھی ہے ۔ لیکن افسوس اس پر ہے کہ اس الزام کو  صرف انہیں ہی پر کیوں  چسپاں کیا جائے اور روشن خیالی کے علمبرداروں کو صرف ان کے کھوکھلے نعروں کے باعث بخش دیا جائے ۔
ہم  صرف برصغیر بلکہ عالم اسلام کا جائزہ لیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مغرب نواز جدت پسند عناصر نے جتنا شدت کے ساتھ شخصیت پسندی ،اندھی تقلید اور مرعوبیت کا ثبوت دیا ہے مذہبی طبقہ اس معاملے میں ان کا کسی طور سے ہم پلہ نہیں ۔ پھر یہ پہلو بھی اہم ہے مذہبی پس منظر میں برداشت ، تحمل اور رواداری کا عنصر کسی نا کسی حد تک نظر آتا ہے لبرل ازم کے دعوے دار اس سے بھی محروم ہیں ۔
بات کہاں سے شروع کی جائے  ۔ ۔ ۔ ! کمال اتا ترک سے  یا سرسید احمد خان سے ۔۔۔! یا پھر پرویز مشرف سے یا موجودہ پاکستانی سیاست میں لبرل ازم کے دعوے دار لیڈروں سے ۔
کمال اتاترک ،آزادخیالوں اور جدت پسندوں کا بابائے قوم ہے ۔ ممکن ہے آج اس کی فکری پود اپنے جد امجد سے واقف نہ ہو ۔ یا پھر اس کی حرکتوں سے ،  موصوف تبدیلی اور عروج کےسب سے پہلے علمبردار تھے اور ترک قوم ان کی دیوانی ،اور اپنے اس دیوانے پن میں انہوں نے اسے قریب قریب دیوتا کا درجہ دیا ۔ اور اس کی کسی مخالف بات کو دل ودماغ میں جگہ نہ دی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اس روشن خیالی اور مرضی سے جینے کے دعوے داروں نے عورتوں کے سروں سے چادریں نوچ لیں ، ترکی ٹوپی اچک کر انگریزی ہیٹ پہنادیا گیا ، اذان کو عربی  میں ادا کرنا ممنوع قرار پایا ۔ اور ایک لمبی فہرست ہے کہ کس طرح  ایک شخصیت نے ایک پوری قوم کا حلیہ بگاڑ دیا ۔ مخالفوں کو اس طرح سرِدار لٹکایا گیا جس طرح جنگِ آزادی کے لیڈروں کو برطانیہ نے لٹکایا تھا، لیکن کسی کے سرپر جوں نہ رینگی ۔شخصیت پسندی کا جادو سرچڑھ کر بولا ۔
سرسید احمد خان برصغیر کے مخصوص حالات کے باعث وہ مقام تو حاصل نہ کرپائے لیکن انہوں نے اپنی مرعوبیت کے باعث قوم وملک کو جتنا نقصان پہنچایا آج پاکستان میں موجود منافقت ، مغربی غلامی اور دریوزہ گری کی جو صورتحال ہے اس سے انہیں کسی طور سے الگ نہیں کیا جاسکتا ۔ کیوں کہ پاکستان میں اعلیٰ مناصب پر موجود تما م بیوروکریسی کسی نہ کسی طور سے علی گڑھ کے اثرات کی حامل ہے جو انہیں اپنے آباءواجداد سے ملے ہیں ۔
سرسید احمد خان اس مغرب سے اس درجہ مرعوب ہوئے کہ انہوں نے مسلمانوں کو کھانے تک میں چھری کانٹے استعمال کرنے کی تلقین کی کہ شاید اسی طریقے سے قوم ترقی کے زینے طے کرے لیکن ہوا کیا ۔۔۔۔!  قوم  آج جن کے چھری کانٹے سے کھانا کھاتی ہے  انہیں کے کہے پر چلتی ہے حالانکہ  سرسید قوم کوان کے مقابل ویسا ہی ترقی یافتہ بنا نا چاہ  رہے تھے ۔ کوئی پوچھے کہ جناب سرسید احمد خان کا خواب کیا تھا اور آج ان کے روشن وآزاد خیال پیرو کہاں ہیں ۔۔؟  اگر جدت پسندی اور تغیر وتبدل چھری کانٹوں کی تبدیلی کا نام ہے تو پھر ایسی جدت سے پرے ہی بھلے ۔  لبرل ازم کے دعوے دار اور فکرسرسید کے علمبردار ان کے الفاظ کو سینے سے لگائے اس پر دل وجان سے عمل پیرا ہیں نتائج وعواقب کی کسے پروا ہے ! 
اور جہاں تک بات ہے موجودہ دور کی تو اب  جدت پسندوں اور روشن خیالوں کی  شخصیت پسندی صرف پسند بن گئی ہے شخصیت  البتہ تبدیل ہوتی رہتی ہے گویا کہاں وہ عہد وفاداری اور کہاں یہ دوری وبیزاری ۔۔۔۔  پرویز مشرف بزعم خود خاموش اکثریت کی پسندیدہ شخصیت تھے  اور اس احساس کا شکار ہو کر انہوں نے اپنے روحانی قائد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کئی کارہائے نمایاں انجام دیے جو ملکی تاریخ کا  سیاہ باب ہیں ۔لیکن ان کے جانے کے بعد پسندیدگی کا ہما اب کسی اور کے سرپر جابیٹھا ہے ۔ کہاجاسکتا ہے کہ جدت پسندوں نے ترقی کرلی اور اب وہ شخصیت کا شکار نہیں  حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اب جدت پسندوں کے پاس کو ئی کمال اتاترک تو کجاپرویز مشرف جیسا بھی فرد نہیں جو اپنی پسندیدگی کے زعم میں گرفتار ہو ۔ اور نہ ہی سرسید احمد خان جیسا علم وتحقیق کے میدان کا آشنا ۔ لہذا فی الوقت تو مغرب سے آنے والی ہوائیں ہی ان کے لیے پیغام امید ہیں سنتے ہیں کہ اب وہ بھی نامناسب آب وہوا  کے باعث اپنا رخ بار بار بدلتی رہتی ہیں ۔ جب کہ خبر یہ بھی ہے کہ موجودہ انتخابات میں کسی پر  جدت پسندوں کی پسندیدگی کا ہما بیٹھا  تو ہے  ع  دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک۔ 

Tuesday, January 22, 2013

ایمان +خلوص =قاضی حسین احمد

0 comments

خلوص ایک ایسی خوشبو ہے کہ جس کے باعث فاصلے سمٹ جاتے ہیں ، عدم شناسائی روکاوٹ نہیں بنتی ، اور مخلص آدمی کو علم بھی نہیں ہوتا کہ اس کے چاہنے والے کہاں کہاں بستے ہیں ۔ خلوص کو میڈیا اور پروپیگنڈہ کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اور اس خلوص کے ساتھ اگر ایمان کی دولت بھی ہوتو پھر محبت کے کیا کہنے ۔ اب وہ محبت  صرف محبت نہ رہی بلکہ الحب للہ ہوگئی ۔ بھلا بتائیے جب خالق کسی کی محبت کے درمیان آجائے تو وہ محبت کتنی پاکیزہ اوراثر انگیز ہوگی ۔
محترم قاضی حسین احمد سے لوگوں کی محبت کا باعث سوائے الحب للہ کے اور کیا تھا۔۔۔! کہ لاکھوں کروڑوں آنکھوں نے اس کے جانے پر آنسو بہائے دنیا کے کونے کونے میں اس کی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اوریوں محسوس ہوا جیسے کوئی اپنا چلا گیا ۔ 
ہمارے ہاں سیاست میں نفرت ومفاد اور مذہب میں مسلکیت اور عناد اس قدر حلول کرگیا ہے کہ اس قوم کے کئی دربے بہا راس کا شکار ہوگئے ۔سو سیاست میں قیادت عنقا ہوگئی اور مذہب سے اعتدال وبرداشت ۔حیرت اس پر ہے  کہ قاضی حسین احمد صاحب نے اس ناقدری اور نامانوس ماحول میں اپنے جانے کا احساس دلایا ۔
جماعت اسلامی سے مجھے لاکھ اختلاف سہی اور قاضی حسین احمد کے فیصلوں سے بھی ۔ لیکن میں قاضی صاحب کے خلوص کا کیا کروں جو مجھ سے اپنا خراج وصول کررہا ہے ۔ اور اس خلوص کی طاقت کے سامنے ایک بے بس آدمی اپنی سی کوشش کرکے کچھ لفظ جوڑ رہا ہے ۔
میں دیکھ رہا ہوں کہ ان کے جنازے میں ہر مسلک کا فرد شریک ہے ۔ وہ بھی جس کا فتوی ہے کہ اس کے پیچھے نماز نہیں ہوگی اور اسی کےبرابر میں وہ بھی موجود ہے جو اس کے ساتھ نماز ادا کرنا صحیح نہیں سمجھتا ۔ لیکن عجب عالم ہے کہ اس نے زندگی میں سب کو جوڑنے کی کوشش کی اس موت بھی سب کو کشاں کشاں ایک دوسرے کے قریب لے آئی ۔ 
میں دیکھ رہا ہوں کہ کراچی تا خیبر اس کےنماز جنازہ ادا کی جارہی ہے ۔ اور صرف یہیں نہیں ۔ بلکہ پورے ایشیا میں اور پھر یہ سلسلہ براعظم تک محدود نہ رہا بلکہ بین البراعظمی ہوگیا ۔ ہم نےشرکاءکے اعتبار سے  طویل وعریض اور کثیر وقلیل جنازے تو دیکھے اور سنے تھے لیکن ایسا کبھی نہ دیکھا نہ سنا ۔
            میرے سامنے مختلف چینلز کے مختلف اینکرز ہیں اور ہر ایک اس کی تعریف میں رطب اللسان ہے۔ ایک وہ ہے کہ جس ساری زندگی اس کی، اس جماعت کی اور اسلام کی مخالفت میں گزری لیکن اس کا دعویٰ ہے جانے والا اس کے بہت قریب تھا ۔ میں چیخ پڑا ۔۔ یااللہ ۔۔ یہ اور مرحوم کی قربت ۔ عجب معاملہ ہے ۔ لیکن کہنے والے نے کہا ہمیں اگر اسلام کا نرم رخ کسی نے دکھا یا تو وہ یہ شخص تھا ۔ورنہ ہم تو سمجھتے تھے کہ اسلامی شخصیت کا مطلب ہوتا ہے تندخو، سخت گیر اور عدم برداشت ۔ایک دوسرے اینکر کا کہنا تھا وہ بڑے دل کا مالک تھا ۔ اس نے اختلاف اور مخالفت کو جمع نہیں کیا اور اختلاف کے باوجود پوری زندگی مخالفوں کے ساتھ رہتے ،جڑتے اور ملتے ہوئے گزاری۔
میرے سامنے مختلف کالم نگاروں کے کالم ہیں اور ہرایک اس سے اپنے تعلق کو بیان کررہا ہے ۔ ان میں سے ایک جو اس شخص کے مقصد زندگی کے بالکل متضاد ہے لکھتا ہے اس کی موت کا سن کر سمجھ نہیں آتا کیا لکھا جائے ۔ میری بچی کے کانوں میں اس نے اذان دی تھی وہ اسے یاد کرتی ہے۔ ایک نے اپنے گھریلو تعلقات تک کے حوالے دیے ۔ 
ابھی میں لوگوں کے کہے اور لکھے کو سننے اور پڑھے میں مصروف تھا کہ اچانک درآمدی دھرنے ، الیکشن ،بدامنی ،غیر مستحکم حکومت اور غیر مستحکم صورتحال کے شور نے توجہ اپنی جانب مبذول کرالی میں نے سوچا اس عالم میں اس ہستی نے اپنے جانے پر سب کو اپنی جانب متوجہ کرلیا ۔ شاید جاتے جاتے یہ پیغام دینے کےلیے اس  پرآشوب صورتحال سے نکلنے کے لیے ایمان ،خلوص ،اتحاد اوربرداشت کی ضرورت ہے ۔
میرا اس ہستی سے ایسا کوئی براہ راست تعلق نہیں ۔ میں نے تو صرف اس لیے قلم اٹھایا کہ ہم نے اس کی زبان سے اقبال کے اشعار نہ صرف سنے تھے بلکہ اسی سے لفظاً و عملاً سمجھے بھی تھے ۔اور اقبال کا فارسی کلام تو اسی سے سنا اور اسی سمجھا حیرت ہے لوگ اسے سیاست دان کہتے ہیں بہت سوں کے لیے تو شارح اقبال تھا ۔ سوچتا ہوں اب کون ہوگا جو کلام اقبال سے دلوں کو گرمائے گا؟ ، اب کون اسرارخودی  اور رموز بے خودی کے مطالب سمجھائے گا؟ ،اب کو ن سفید ریش کےنوجوان کا بدل بنے گا؟   

نیت اور خلوص نیت (چند پہلو)

·         عمل  کااولین مرحلہ نیت یا ارادہ کی تشکیل ہے ۔ نیت جتنی سنجیدہ ، شدید اور پختہ  ہوگی عمل اتنا ہی جلد اور بہتر وقوع پذیر ہ...

Search This Blog

Instagram

Sidebar Menu

Slider

Advertisement

About Me

Disqus Shortname

Facebook

Recent Posts

Comments system

Home Ads

Popular Posts