خوشی ، مسرت ، آسانی ، سہولت اور اس طرح کے کئی الفاظ ہیں جن کا پیچھا کرنے انہیں حاصل کرنے اور اسے اپنے قبضے میں رکھنے کے لیے ہم لوگ مسلسل شب وروز مصروفِ عمل رہتے ہیں ۔ لیکن حیرت ہے کہ ہر شخص ان چیزوں کی کمی یا نا ہونے کا شکوہ کرتا دکھا ئی دیتا ہے
سوال یہ کہ اتنی زیادہ جدوجہد کے باوجود ان کا حصول ممکن کیوں نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔ ؟ یہاں تک کہ انسان اسی بے چینی ، حسرت ویاس کے عالم میں اس جہان سے کوچ کر جاتا ہے ۔
دراصل یہاں مسئلہ خوشی کا نہیں بلکہ تصوّر خوشی کا ہے ۔ خوشی اور مسرت کی حقیقت اس سے بالکل جدا ہے کہ جسے لوگ خوشی سمجھے بیٹھے ہیں ۔
اس کی مثال ہم یوں لے سکتے ہیں کہ کہ کوئی آگ کو برف سمجھ کر اس سے ٹھنڈک حاصل کرنا چاہے تو آگ اسے جلائے گی ہی ۔۔۔! نہ کہ ٹھنڈک دے گی ۔ اور دنیا اسے پاگل سجھے گی ۔
خوشی کا معاملہ تو سراسر روحانی ہے اور ہم نے مادی فوائد کو خوشی کا نام دے رکھا ہے ۔ ہم اپنے اس تصور سے خوش ہوتے بھی ہیں لیکن ہمارے چہروں سے بے اطمینانی چھلک رہی ہوتی ہے ۔ کیونکہ کسی مادی سبب سے ہم مسکرا اور ہنس تو لیتے ہیں لیکن ہماری یہ ہنسی اور مسکراہٹ فقط اس چیز کا ردعمل ہوتی ہے جو کہ ہمارے سامنے ہے یا جس کے تصور میں ہم کھوئے ہوئے ہیں جیسے ہی وہ وجۂ مسکراہٹ ختم ہوتی ہے ہمیں دوبارہ بے اطمینانی اور بےکیفی کی کیفیت ڈھانپ لیتی ہے ۔
خوشی کیا ہے ۔۔۔۔۔۔ ! ایک احساس ہے ۔
ایک ایسا احساس جو آدمی میں ایسی کیفیات رونما کرتا ہے کہ جس کے سبب وہ خود کو ہر قسم کے ذہنی دباؤ سے آزاد سمجھتا ہے ۔
اس طرح یہ کیفیات جس عمل سے رونما ہوں وہ حصولِ خوشی کا ذریعہ سمجھی جاتی ہیں ۔ چاہے ان سے یہ کیفیت عارضی طور پر رونما ہو یا مستقل طور پر ۔
اب خود بتائیے کہ کون عارضی طور پر خوش رہنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ۔! تمام عالم دائمی خوشی کے نسخے تلاش کرتا پھر رہا ہے اور دنیا ایسے عطائیوں کے پیچھے بھا گ رہی ہے جو عارضی مسرتوں کے حصول کے طریقوں کو دائمی مسرت کا لیبل لگا کر فروخت کر رہے ہیں ۔
( جاری )
0 comments:
Post a Comment